

تحریر: فرحان اللہ خلیل
khalilfarhan87@gmail.com
پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں جدیدیت، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ترقی نے ایک طرف رابطے، تعلیم اور معلومات کے دروازے کھول دیے ہیں تو دوسری جانب یہی ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سوشل میڈیا، معاشرتی اقدار، روایات، اخلاقیات اور مذہبی اصولوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ معاشرہ جس تیزی سے سوشل میڈیا کے زیرِ اثر آ رہا ہے اسی تیزی سے ایک نئے اخلاقی بحران میں بھی گر رہا ہے . ایک ایسا بحران جو نہ صرف نوجوان نسل کی شناخت و کردار کو نگل رہا ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ رہا ہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں نوجوان لڑکیاں غیر اخلاقی لباس پہنے، نازیبا حرکات کرتے اور غیر مہذب زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھی گئیں۔ ان ویڈیوز میں صرف اظہار نہیں بلکہ باقاعدہ شہرت کے لیے حدوں کو عبور کیا گیا۔ یہ ویڈیوز نہ صرف فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر لاکھوں بار دیکھی گئیں بلکہ ان پر تبصروں، شیئرنگ اور غصے سے بھرے ردعمل کی ایک لہر دوڑ گئی۔یہ وہ مواد تھا جسے نہ گھر میں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے نہ اسکول، کالج یا کسی سماجی ادارے میں قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی مواد نے وائرل ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور وہ افراد جنہوں نے یہ سب کچھ کیا سلیبریٹی بن گئے۔بعض حلقے اسے انفرادی آزادی یا ذاتی انتخاب کا حق قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کوئی لڑکی یا لڑکا کچھ بھی کرنا چاہے تو اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں انفرادی آزادی کو اجتماعی اقدار پر ترجیح دی جا سکتی ہے؟ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ہر معاشرہ اپنی اجتماعی اخلاقیات اور سماجی حدود کے اندر ہی اپنی ترقی، شناخت اور بقا کو ممکن بناتا ہے۔ اگر انفرادی اظہار اس حد کو توڑ دے تو پھر معاشرہ انتشار، بے راہ روی اور بگاڑ کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہی آج کا سب سے بڑا المیہ ہے۔سوشل میڈیا کو بلاشبہ ایک طاقتور پلیٹ فارم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جہاں مثبت استعمال سے شعور، تعلیم اور آگہی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ مگر یہی پلیٹ فارم آج نوجوان نسل کے لیے اخلاقی طور پر زہریلا بنتا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق نوجوانوں میں خود اعتمادی کی کمی، پہچان کی بھوک، توجہ کی طلب اور وائرل ہونے کی خواہش نے انہیں اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ چاہے وہ ناچ گانا ہو، نازیبا لباس ہو یا غیر اخلاقی حرکات و گفتگو۔اس بحران کا ایک بڑا محرک والدین کی بے خبری، لاپرواہی یا بعض صورتوں میں خاموش حمایت بھی ہے۔ کچھ والدین ایسے بچوں کے سوشل میڈیا فالوورز، ویوز اور کمائی کو کامیابی سمجھتے ہیں، بغیر یہ دیکھے کہ اس کامیابی کی بنیاد اخلاقی زوال پر ہے۔بعض واقعات میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین خود اپنی بیٹیوں کے ٹک ٹاک یا انسٹاگرام ویڈیوز کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں یا کم از کم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں والدین کی غفلت پوری قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جاتی ہے۔تعلیمی ادارے جو کبھی کردار سازی کے مرکز ہوا کرتے تھے آج صرف نصاب مکمل کرنے کے ادارے بن کر رہ گئے ہیں۔ طلبہ کے موبائل استعمال پر پابندیاں محض ضابطے کی کارروائی بن چکی ہیں اور عملی اقدامات کا فقدان ہے۔اسی طرح مساجد اور مذہبی ادارے بھی اس فتنے کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ خطبہ جمعہ جیسے مواقع کو بھی سماجی و اخلاقی مسائل کے بجائے محض عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔کچھ علما کرام نے البتہ اس مسئلے پر آواز بلند کی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ صورتحال اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ قرآن و سنت کا پیغام شرم و حیا، پردے، وقار اور عزت پر زور دیتا ہے۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا جب تم میں حیا نہ رہے، تو جو چاہے کرو ۔ اور یہی کچھ آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔علمائے کرام کا مطالبہ ہے کہ ریاست اور والدین دونوں کو اس مسئلے پر ایک مثر، دیرپا اور حکیمانہ پالیسی اپنانا ہو گی ورنہ ہماری آئندہ نسل مکمل طور پر اخلاقی گمراہی میں گم ہو جائے گی۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نازیبا مواد، سائبر کرائم اور آن لائن ہراسگی کے خلاف قوانین تو موجود ہیں جیسا کہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (PECA)،سائبر کرائم ایکٹ 2016FIA سائبر ونگ اور PTA کا دائرہ کارلیکن ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ روزانہ سوشل میڈیا پر بے شمار فحش ویڈیوز، نازیبا مواد اور غیر اخلاقی سرگرمیاں اپلوڈ کی جاتی ہیں مگر کارروائیاں یا تو برائے نام ہوتی ہیں یا مخصوص طبقے تک محدود۔ سوال یہ ہے کہ ادارے کب حرکت میں آئیں گے؟ماہرینِ نفسیات کے مطابق سوشل میڈیا پر اخلاقی حدود توڑنے والے نوجوان دراصل ایک گہرے نفسیاتی خلا کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں گھر، سکول یا سماج سے وہ توجہ، محبت اور پہچان نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ڈیجیٹل توجہ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔ چاہے وہ عزت کے خلاف ہو یا مذہب کے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹک ٹاک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز کے پاس ایسے مواد کو فلٹر کرنے کے ٹولز موجود ہیں مگر وہ صرف ان ویڈیوز کو ہٹاتے ہیں جو پالیسی کی کھلی خلاف ورزی کریں۔ باقی تمام نازیبا مواد اگر وہ وائرل ہو جائے تو ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔یہ کمپنیاں بھی اس اخلاقی گراوٹ میں برابر کی شریک ہیں جن کے خلاف حکومتی سطح پر دبا ڈالنا ضروری ہے۔پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلامی، اخلاقی اور تہذیبی اصولوں پر رکھی گئی۔ اگر ہم اس بنیاد کو کھو بیٹھے تو صرف ہماری شناخت ہی مٹ جائے گی بلکہ ہم اپنے بچوں، خاندانوں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک برباد معاشرہ چھوڑ کر جائیں گے۔سوشل میڈیا کی طاقت کو مثبت استعمال میں لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں آج ہی سے شرم، حیا، سچائی، محبت، عزت اور احترام جیسے الفاظ کو صرف کتابوں میں ہی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی اور ڈیجیٹل دنیا میں بھی زندہ کرنا ہو گا ۔ کیونکہ اگر ہم نے اب قدم نہ اٹھایا تو کل بہت دیر ہو چکی ہو گی۔