
تحریر: فرحان خلیل khalilfarhan87@gmail.com
پشتو کا ایک پرانا محاورہ ہے چی دا کور سپک وی نو ہر زائی سپک وی یعنی اگر انسان اپنے گھر میں بیعزت ہو تو وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی عزت نہیں پا سکتا۔یہ محاورہ صرف گھریلو زندگی تک محدود نہیں بلکہ سماجی اور پیشہ وارانہ حلقوں میں بھی پوری شدت سے صادق آتا ہے خصوصا اگر ہم بات کریں پاکستان میں صحافی برادری کی۔جہاں صحافی ریاست کا چوتھا ستون مانے جاتے ہیں وہاں بدقسمتی سے خود اس ستون کی بنیادیں اندر سے کمزور ہو چکی ہیں۔ اور اس کمزوری کا سب سے بڑا سبب صحافیوں کا اپنے ہی صحافی بھائیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا غیر پیشہ ورانہ، امتیازی اور منافقانہ رویہ ہے۔صحافت کا پیشہ کبھی عزت، سچائی اور عوام کی آواز تصور کیا جاتا تھا۔ صحافی وہ آئینہ ہوتا تھا جس میں معاشرہ اپنا اصل چہرہ دیکھتا تھا۔ لیکن آج وہ آئینہ دھندلا چکا ہے۔ اس دھند کا سبب بیرونی دبا کم اندرونی ٹوٹ پھوٹ زیادہ ہے۔آج اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ صحافی برادری کے اندر گروہ بندی، ذاتی مفادات اور اقربا پروری نے ایسے پنجے گاڑ لیے ہیں کہ باصلاحیت، محنتی اور سچ کے لیے لڑنے والے صحافی پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ تعلقات کے بل بوتے پر مخصوص چہرے ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔کسی بھی صحافتی ورکشاپ، سیمینار یا ٹریننگ پروگرام کا انعقاد ہو تو ہمیشہ وہی افراد مدعو کیے جاتے ہیں جو قریبی سے تعلق رکھتے ہیں۔
باقی صحافی جنہوں نے برسوں مٹی میں کام کیا جو فیلڈ کی گرمی، دھوپ، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ہراسانی جھیلی، ان کا نہ نام آتا ہے اور نہ دعوت۔یہ روش صرف موقعوں کی محرومی نہیں بلکہ جذباتی اور نفسیاتی سطح پر بھی تکلیف دہ ہے۔ مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب وہ لوگ جو آپ کے شعبے کے ہیں آپ کے دکھ درد، حالات اور جدوجہد کو سمجھ سکتے ہیں وہی آپ کو پسِ پشت ڈال دیں۔پریس کلب جو کسی بھی شہر میں صحافیوں کے اتحاد، حقوق اور تربیت کا مرکز ہونا چاہیے اکثر ذاتی سیاست، مراعات اور دھڑے بندی کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ سالانہ انتخابات میں جس جوش و خروش سے صحافی ووٹ دیتے ہیں اتنی ہی جلدی منتخب نمائندے ووٹرز کو فراموش کر دیتے ہیں۔ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ پریس کلب کی قیادت محض اپنے مخصوص افراد کو نوازتے ہیں خواہ وہ کسی تربیتی ورکشاپ کی فہرست ہو یا کسی سرکاری دعوت کی نشست۔فی الوقت صحافیوں میں گروہ بندی کا ایک افسوسناک مظہر یہ بھی ہے کہ ہر بیٹ کے رپورٹرز نے اپنے مخصوص واٹس ایپ گروپ بنا لیے ہیں اور فیلڈ میں کام کرنے والے دیگر صحافیوں کو ان گروپس سے نکال دیا جاتا ہے یا شامل ہی نہیں کیا جاتا۔یہ محض چھوٹی ذہنیت کی عکاسی ہے ۔ایک وقت تھا کہ تمام رپورٹرز مل بیٹھ کر بیٹ کور کرتے تھے ایک دوسرے سے تعاون لیتے تھے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ میرا سورس میرا ہے تمھیں کچھ نہیں ملے گا جیسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ ایسی فضا میں صحافت عوام کی خدمت کا ذریعہ نہیں رہتی بلکہ ذاتی مفادات کا میدان بن جاتی ہے۔کہتے ہیں دشمن کے زخم بھر جاتے ہیں مگر اپنوں کے دیے زخم رس رس کر دل کو مایوس کر دیتے ہیں۔ یہی حال آج کے محنتی اور دیانتدار صحافیوں کا ہے۔کسی تقریب میں بھلا دیا جانا، کسی بریفنگ سے باہر رکھنا، کسی رپورٹنگ کے موقع پر تعاون نہ ملنا یہ سب معمول بن چکا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحافت جیسے حساس، ذمہ دار اور اخلاقی پیشے کے لوگ ہی باہم اتفاق نہ رکھیں، ایک دوسرے کی قدر نہ کریں تو پھر عام عوام کو سچ تک رسائی کیسے ملے گی؟ جب صحافی ہی صحافی کا گلا کاٹے گا تو پھر حق کی آواز بلند کون کرے گا؟ہمیں اس ماحول پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ صحافی برادری خود احتسابی کرے۔کیا ہم یہ سوچنے کے لیے تیار ہیں کہ آخر کیوں ہمارے درمیان حسد، تعصب اور اقربا پروری بڑھتی جا رہی ہے؟کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے صحافت کو ایک نیک پیشہ کے بجائے مراعات، شناخت اور اقتدار کا ذریعہ بنا دیا ہے؟اگر ہم اب بھی نہ جاگے، اگر ہم نے اب بھی اپنے رویوں کو نہ بدلا تو ایک دن یہ پیشہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ہم محض پریس کارڈ اٹھائے لوگ بن جائیں گے وہ مشنری صحافی نہیں جو تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔یاد رکھیے ! یہ دنیا صرف آپ کی صلاحیتوں سے نہیں بلکہ آپ کے برتا سے بھی آپ کو یاد رکھتی ہے۔ ایک صحافی اگر اپنے ہی ساتھی کا دشمن بن جائے تو وہ خود اپنی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہوتا ہے۔یاد رکھیے اگر آپ اپنے ہی گھر میں بیعزت ہیں اگر آپ کے ساتھی آپ کو اپناتے نہیں تو دنیا میں کہیں بھی عزت حاصل نہیں کر سکتے۔آخر میں…آج بڑے دکھ اور شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کاش میں صحافی نہ ہوتا۔ایسا کہنا کسی اور کے لیے نہیں، صرف اس لیے ہے کہ وہ دکھ جو معاشرے کے دوسرے طبقات سے نہیں بلکہ اپنے ہی ساتھیوں سے ملتا ہے وہ دل کو زخمی کر دیتا ہے۔ہمیں دشمنوں سے خطرہ نہیں ہمیں اپنوں کی بے اعتنائی مارتی ہے۔اگر ہم نے اپنے گھر کو ٹھیک نہ کیا تو باہر کی دنیا ہمیں کبھی سنجیدگی سے نہیں لے گی۔وقت آ چکا ہے کہ ہم صحافی صحافی کے ساتھی بنیں مقابل نہیں۔ورنہ…نہ ہم تاریخ میں زندہ رہیں گے نہ ہمارے الفاظ میں کوئی اثر باقی رہے گا۔